1997 میں ناروے کی کمپنی نارپلان کنسلٹنگ انجینئرز اینڈ پلانرز نے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے متعلقہ معاملات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد کہا تھا کہ نوسیری اور مظفرآباد میں ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے اور اس علاقے میں رہنے والے لوگوں کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دریائے نیلم میں کم از کم 20 مکعب میٹر فی سیکنڈ کا بہاؤ برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔
نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا ابتدائی منصوبہ 2002 یعنی اکتوبر 2005 کے زلزلے سے پہلے بنایا گیا تھا۔ اسی بنیاد پر اُ س کی تخمینی لاگت بھی کم تھی لیکن زلزلے کے بعد ماہرین ارضیات کے مطابق ڈیم کے مقام نوسیری سے ایک فالٹ لائن گزر رہی ہے اس لیے ڈیم کے ڈیزائن میں 8ریکٹر سکیل کی شدت کا زلزلہ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھنے کے حوالے سے بنیادی تبدیلیاں کی گئیں۔ جس سے اسکی لاگت میں اضافہ ہو گیا اور منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ تاہم 2008 میں اسکی تعمیر میں حائل تمام رکاوٹیں فور کر کے کام شروع کر دیا گیا۔
انفرادیت:
نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پاکستان کا پہلا زیر زمین بجلی کا پراجیکٹ ہے جو ایک عجوبہ اور انجینئرنگ کا ایک زبردست شاہکار ہے۔ اس کا 90 فیصد حصہ بلند و بالا پہاڑوں کے نیچے زیر زمین تعمیر کیا گیا ہے۔ مظفر آباد میں سنگم کے قریب دریائے نیلم اور دریائے جہلم مل جاتے ہیں۔ اس مقام پر ایک دریا کو دوسرے دریا کے نیچے سے گزارا گیا ہے اور کمال یہ ہے کہ دریائے نیلم کو گڑھى دوپٹہ کے مقام پر 180 میٹر دریائے جہلم کے نیچے سے اس طرح گزارا گیا ہے کہ دریائے جہلم کو اسکا پتہ نہ چل سکا۔ پراجیکٹ 420 میٹر بلندى پر سے بہنے والے پانى پر بنایا گیا ہے جس کى سرنگیں، پاور ہاؤس، سیوئچ یارڈ اور ٹرانسمیشن لائنز کى تعمیر کسى عجوبے سے کم نہیں۔
منصوبے کا مقام:
آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے جنوب میں 42 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع وقدی نیلم میں دریائے نیلم پر نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ تعمیر کیا گیا ہے۔
پیداواری صلاحیت:
منصوبے کی مجموعی پیداواری صلاحیت 969 میگاواٹ ہے۔ اس کے چار پیداواری یونٹ ہیں ، جن میں سے ہر ایک کی پیداواری صلاحیت 242.25 میگاواٹ ہے۔ منصوبہ ہر سال نیشنل گرڈ کو تقریباً پانچ ارب یونٹ سستی پن بجلی مہیا کرے گا۔ 18 مئى 2020 تک یہ منصوبہ نیشنل گرڈ کو 8 ارب یونٹ بجلى فراہم کر چکا ہے جس سے 80 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہوا۔
آمدنی:
اس منصوبے سے سالانہ تقریباً 55 ارب روپے کی آمدنی ہوگی۔
فنڈز:
نیلم جہلم پن بجلی منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 2008ء میں 84 ارب روپے لگایا گیا تھا لیکن یہ شاہکار منصوبہ ڈیزائن میں بڑی تبدیلیوں کی وجہ سے 500 ارب روپے میں مکمل ہوا ہے۔
کنٹریکٹرز:
اس پراجیکٹ کو چین کى کنٹریکٹر کمپنى CGGC نے مکمل کیا ہے۔ کنسلٹنٹ ایک امریکن کمپنى MWH تھى۔ LDC نیسپاک ACE واپڈا نے منصوبے کى نگارنى کے فرائض انجام دیئے۔
تفصیل:
آزاد کشمیر میں 31 کلومیٹر طویل تعمیر شده سرنگ کے زریعے دریائے نیلم کو نوسیری کے مقام سے چھتر کلاس تک لے جایا گیا ہے۔ اس مقام پر زیر زمین واٹر وے اور پاور ہاؤس تعمیر کیا گیا ہے۔ پراجیکٹ کے تین پیداواری یونٹس مسلسل فعال ہیں جبکہ چوتھا ایڈشنل یونٹ ایمرجنسى کے لئے رکھا گیا ہے۔ حکومت آزاد کشمیر پراجیکٹ کے لئے حاصل شدہ زمینوں کے طے کئے گئے معاوضے ادا کر چکی ہے۔ اسی پراجیکٹ کے این او سی میں آزاد کشمیر حکومت کی جانب سے چوبیس سکیمیں واپڈا کے فنڈز سے بنانے کی شرط رکھی گئی جو واپڈا نے تسلیم کرتے ہوئے چوبیس سکیموں کے لئے 5237 ملین (یعنی 5.2 ارب روپے) آزاد کشمیر کے لئے فنڈز مختص کر دئیے جن میں سے بائیس سکیموں کی رقم آزاد کشمیر حکومت کو دے دی گئی ہے جبکہ دو سکیموں کی رقم ابھی واپڈا کے ذمے بقایا ہے جس میں 1448 ملین روپے کی جھیلوں کا بھی منصوبہ شامل ہے (جوں ہی آزاد کشمیر حکومت اس کی فزیبلٹی رپورٹ مکمل کر کے واپڈا کو دے گی باقی رقم آزاد کشمیر حکومت کو ادا کر دی جائے گی)۔ دس سال میں کام کے دوران مختلف حادثات میں 20 سے زائد مزدور اور چینى انجینئرز ہلاک ہوئے۔
(یاد رہے کہ بھارت نے بھی دریائے نیلم پر کشن گنگا پراجیکٹ تعمیر کر رکھا ہے۔ کشن کنگا کو آزاد کشمیر میں دریائے نیلم کہا جاتا ہے ۔ بھارت نے 2005 میں اس پر لائن آف کنٹرول کے بہت قریب وادی گریز میں ایک بجلی گھر بنانے کا اعلان کیا تھا اسے کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کہتے ہیں۔ کشن گنگا، جہلم کا معاون دریا ہے اور سندھ طاس معاہدے کے مطابق اس کے پانی پر پاکستان کا حق ہے)۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پاکستان کی خوشحالی اور آزاد کشمیر کی ترقی کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ اسے واپڈا ، حکومتِ پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت نے چیلنج سمجھ کر قبول کیا تھا جس کی تکمیل ایک خواب تھی۔ واپڈا نے ملک میں بجلی کی خطرناک حد تک کمی اور آزاد کشمیر کی مقامی آبادی کی علاقائی اور ماحولیاتی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس منصوبے کی بنیاد رکھی تھی۔
تکمیل مدت:
نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبہ دس سال (2008 تا 2018) میں مکمل ہوا۔
افتتاح:
حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کے تعاون اور وزرائے اعظم (میاں نوازشریف اور راجہ فاروق حیدر) کی خصوصى دلچسپی کے باعث منصوبہ تیزى سے مکمل کیا گیا۔ 13 اپریل 2018 کو سابق وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے اس منصوبے کا باضابطہ افتتاح کیا۔