بدھ 29 نومبر 2023
16  جُمادى الأولى 1445ھ
Pak Recorderads
نیوز الرٹ :

جنرل ڈگلس گریسی

جنرل ڈگلس گریسی

فوری حقائق:

تاریخ پیدائش:  3 ستمبر 1894
جائے پیدائش: 
مدت ملازمت 
مدت ملازمت بطور پاکستانی کمانڈران چیف: 
تاریخ وفات:  5 جون 1964
جائے وفات:5 جون1964


تعارف:

جنرل سر ڈگلس ڈیوڈ گریسی ایک برطانوی ہندوستانی فوج کے افسر تھے۔ جنہوں نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی حکومت کت لیے خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں وہ  پاکستان آرمی کے دوسرے کمانڈر انچیف بنے۔ گریسی 11 فروری 1948 سے 16 جنوری 1951 کو اپنی ریٹائرمنٹ تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ہندوستان میں رہنے والے انگریز والدین کے ہاں پیدا ہوئے، انہوں نے برطانوی فوج میں خدمات انجام دینے کے لیے ہندوستان واپس آنے سے پہلے انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔


ابتدائی زندگی اورتعلیم:

انہوں نے بلنڈلز سکول  انگلستان سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے رائل ملٹری کالج، سینڈہرسٹ میں داخلہ لیا۔ 


کیرئیر:

 ڈگلس گریسی کو 15 اگست 1914 کو سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور ہندوستانی فوج میں کمیشن دیا گیا۔ 1915 کے اوائل تک وہ 5ویں ایکسٹرا ریزرو بٹالین، رائل منسٹر فوسیلیئرز سے منسلک ہو چکے تھے۔ انہوں نے 11 جنوری سے 2 مئی 1915 تک فرانس میں جنگی خدمات انجام دیں جہاں وہ زخمی ہوئے بھی ہوئے۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیان وہ 1925 میں رائل ملٹری کالج، سینڈہرسٹ میں ایک انسٹرکٹر بنا دئیے گئے۔اس کے بعد انہوں نے 1928 سے 1929 تک اسٹاف کالج کوئٹہ میں تعلیم حاصل کی۔امن کے زمانے میں ترقی دھیرے دھیرے ہوئی اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افسران کے لیے اگلی رینک اپ کے عبوری قدم کے طور پر بریوٹ رینک کا استعمال کیا گیا۔ 1930 میں گریسی کو بریوٹ میجر کے عہدے پر ترقی ملی۔ 1931 کے آخر میں وہ جی ایچ کیو انڈیا میں GSO2 مقرر ہوئے اور جب 1935 کے آخر میں یہ تقرری ختم ہوئی تو انہیں میجر کے عہدے پر ترقی مل چکی تھی۔ 1937 کے اوائل میں انہیں ہندوستان میں ویسٹرن کمانڈ میں ایک اور GSO2 پوسٹنگ دی گئی۔ کیپٹن سے میجر بننے کے لیے اتنے لمبے انتظار کے بعد، لیفٹیننٹ کرنل اور لیفٹیننٹ کرنل کے لیے ان کی اگلی پیشرفت جنوری 1938 اور فروری 1939 میں بہت تیزی سے ہوئی۔
اپریل 1942 میں گریسی کو قائم مقام میجر جنرل کی ترقی دی گئی اور انہیں ہندوستانی 20 ویں انفنٹری ڈویژن کی تشکیل اور پھر کمانڈ کرنے کا کام سونپا گیا۔ اس ڈویژن نے تربیت کے لیے سیلون میں توجہ مرکوز کی اور اگست 1943 میں اسے برما مہم میں حصہ لینے کے لیے شمال مشرقی ہندوستان میں چودھویں فوج کی انڈین XV کور میں شامل ہونے کے لیے بھیجا گیا۔
فروری 1945 میں گریسی کو برما اور ہندوستان کی مشرقی سرحد پر بہادر اور ممتاز خدمات کے لیے کمانڈر آف آرڈر آف برٹش ایمپائر (CBE) مقرر کیا گیا تھا اور مئی میں ان کے میجر جنرل کے عہدے کو مستقل کر دیا گیا تھا۔ مئی 1946 میں قائم مقام لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ گریسی نے ہندوستان میں پے درپے شمالی کمان اور انڈین آئی کور کی کمان کی۔ جنوری 1948 میں انہیں نائٹ کمانڈر آف دی آرڈر آف دی انڈین ایمپائر (KCIE) مقرر کیا گیا اور مارچ 1946 اور اکتوبر 1948 کے درمیان انڈین سگنل کور کے کرنل کمانڈنٹ کی اعزازی حیثیت میں خدمات انجام دیں۔


پاکستان

1947 کے اواخر میں جب برٹش انڈیا کی تقسیم ہوئی تو گریسی 1948 میں پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف کے طور پر فرینک میسروی کی جگہ لینے سے پہلے چیف آف دی جنرل اسٹاف اور پاکستانی فوج کے ڈپٹی کمانڈر انچیف بن گئے۔جب 22 اکتوبر 1947 کو کشمیر پر پاکستانی قبائلی حملے شروع ہوئے تو میسروی لندن میں موجود تھے اور گریسی آرمی چیف کے طور پر کام کر رہے تھے۔ 
قبائلی لشکر کی کشمیر آمد کے بعد، مہاراجہ نے کزمیر کے بھارت سے الحاق کا اعلان کر دیا۔ جسے بنیاد بنا کر بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں اتار دیں۔گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح نیپاکستانی فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی کو کشمیر کی جانب پیش قدمی کا حکم دیا۔ لیکن جب دونوں ممالک (بھارت اور پاکستان) کے مشترکہ سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل کلاڈ اینلک اور جنرل گریسی نے قائداعظم کو اس قدم کے ممکنہ نتائج سے آگاہ کیا تو قائد اعظم نے بطور گورنر جنرل اپنے سابقہ حکم کو واپس لے لیا۔اس مرحلے پر دونوں ممالک (پاکستان اور بھارت) کی افواج مشترکہ برطانوی کمان کے تحت تھیں، کلائڈ اینکلک نے پہلے ہی فوجوں کو کسی قسم کی مہم جوئی سے منع کر رکھا تھا کہ دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان تصادم کی صورت میں تمام برطانوی افسران دستبردار ہو جائیں گے۔ اینکلک کی اس دلیل کے بعد قائداعظم نے اپنے حکم کو واپس لیا۔اس واقعے کا تڈکرہ نہ صرف میجر جنرل وجاہت حسین نے اپنی کتاب "Memories of a Soldier"میں کیا ہے بلکہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی نے بھی اپنی کتاب "The Emergence of Pakistan"میں  اس واقعے کی تصدیق کی ہے۔ جنوری 1948کو گرنر جنرل قائداعظم کو نئے کمانڈر ان چیف کے لیے تین نام پیش کیے گئے۔ جن میں لیفٹیننٹ جنرل رسل پاشا، لیفٹیننٹ جنرل فرانسس ٹکر اور جنرل سر ڈیوڈ ڈگلس گریسی کے نام شامل تھے۔قائداعظم نے پاکستان کے کمانڈر ان چیف کے لیے جنرل گریسی کا انتخاب کیا۔ جس سے بھی اس تاثر کی نفی ہوتی ہے کہ جنرل گریسی نے قائداعظم کی کشمیر پر پیش رفت کی حکم عدولی کی۔اگر ایسا ہوتا تو قائداعظم کبھی بھی جنرل گریسی کو عہدے پر فائز نہ کرتے۔ میجر جنرل سید وجاہت حسین جو افواج پاکستان کے دوسرے کمانڈر ان چیف کے اے ڈی سی (ADC)  کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے، ان کے خیال کے مطابق کشمیر پر حکم عدولی کاا فسانہ قائداعظم کی وفات اور جنرل گریسی کی سبکدوشی کے بعد گھڑا گیا تھا۔ وجاہت حسین کے مطابق حکم عدولی کی بات پہلی بار ایلن کیمبل کی کتاب "Mission with Moutbatten"میں سامنے آئی تو انہوں نے جنرل گریسی سے اس بارے میں استفار کیا، جنرل گریسی نے صاف الفاظ میں اس بات کو سراسر غلط اور بے بنیاد قرار دیا۔ وجاہت حسین اپنی کتاب "Memories of a Soldier  میں لکھتے ہیں کہ جنرل گریسی اور قائداعظم کے تعلقات بہت خوشگوار تھے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب جنرل گریسی کور کمانڈر کراچی تھے تو قائداعظم نے انہیں اپنی سرکاری رہائش گاہ میں رہنے کی اجازت دی۔ 
 جنرل گریسی نے کشمیر کے معاملے پر ہونے والی پہلی پاک -بھارت جنگ میں پاکستان کے سپاہ سالار ہونے کا بیترین حق ادا کیا۔ مخدوش حالات کے پیش نظر جب جنرل گریسی کی توجہ ان کے اپنی سیکورٹی کی طرف دلائی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ مجھے کون مارے گا؟ میں چاہتا ہوں کہ ہماری (پاکستان) فوج کا ہر سپاہی کشمیر کے محاذ پر تعینات ہو۔ جنرل گریسی نے اپنی جنگی مہارت اور تجربے سے بھارت کو1948کی پہلی پاک -بھارت جنگ میں ناکوں چنے چبوائے۔ دسمبر 1948میں جب پاک فوج کا "آپریشن وینس" اپنے عروج پر تھا تو بھارتی فوج کو شدید نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا۔نقصان اس حد تک بڑھ گیا کہ ان کے بھارتی ہم منصب  جنرل رابرٹ روئے بوچر نے خود فون کر کے جنرل گریسی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تا کہ جنگ بندی ہو سکے۔اس دن بھارتی کمانڈر ان چیف کے دفتر سے جنرل گریسی کے لیے کیا جانے والا یہ چوتھا فون تھا۔  جنرل گریسی نے اس چوتھے فون کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے جنگ بندی کے لیے اجازت مانگی۔جب وزیر اعظم نے اجازت دے دی تو اس کے بعد جنرل گریسی نے بھارتی ہم منصب سے فون پر بات کی۔ اور جنگ بندی عمل میں لائی گئی۔    

ریٹائرمنٹ:

جنرل گریسی نے ریٹائر ہونے کے لیے اپریل 1951 میں پاک فوج کو چھوڑ دیا۔ چونکہ برطانوی فوج میں ان کا مستقل رینک کبھی میجر جنرل سے آگے نہیں بڑھ سکا تھا لہذا ریٹائرمنٹ پر انہیں جنرل کا اعزازی رینک دیا گیا اور حکومت پاکستان کی درخواست پر انہیں  جنوری 1951 میں اپنے CB کو نائٹ کمانڈر آف دی آرڈر آف دی باتھ (KCB) کے عہدے پر بھی ترقی دی گئی۔