بدھ 29 نومبر 2023
16  جُمادى الأولى 1445ھ
Pak Recorderads
نیوز الرٹ :

جنرل عبدالوحید کاکڑ

جنرل عبدالوحید کاکڑ

فوری حقائق:

تاریخ پیدائش:  20 مارچ 1937
جائے پیدائش: پشاور
وجہ شہرت: آرمی چیف
رہائش: راولپنڈی 

تعارف:

جنرل کاکڑ ایک زبردست اور مضبوط شخصیت کے مالک تھے۔ فوج میں، وہ اپنے ساتھیوں میں ایک تیز سوار اور کوہ پیما کے طور پر مقبول تھے۔جنرل عبدالوحید کاکڑ، پاکستان آرمی میں ایک ریٹائرڈ فور اسٹار رینک والے آرمی جنرل تھے جنہوں نے چیف آف آرمی سٹاف کے طور پر خدمات انجام دیں، بطور آرمی چیف ان کی مدت ملازمت 12 جنوری 1993 کو 12 جنوری 1996 تک رہی۔ان کی تقرری آرمی چیف، جنرل آصف نواز کی اچانک موت کے بعد عمل میں آئی، اور انہیں خاص طور پر پانچ سینئر اعلیٰ فوجی جرنیلوں کو زیادہ سال کی سنیارٹی کے باوجود ترجیح دی گئی۔ جنرل کاکڑ نے 1993 میں آئینی بحران کو حل کرنے کے لیے صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے حاصل کرنے کے بعد، قومی عام انتخابات کی نگرانی کی۔


ابتدائی زندگی اور تعلیم:

عبدالوحید کاکڑ 23 مارچ 1937 کو ہندوستان کے صوبہ سرحد (موجودہ کے پی کے)کے شہر پشاور کے نواحی علاقے میں پیدا ہوئے۔  ان کا تعلق کاکڑ قبیلے کے ایک پشتون گھرانے سے ہیجس وجہ سے ان کی  پشتو میں روانی تھی۔ان کا خاندان بعد میں شمال کی طرف ہجرت کر گیا تھا اور بالآخر پشاور میں آباد ہوگئے۔
ان کے چچا عبدالرب نشتر کا شمار پاکستان کے بانیوں میں ہوتا تھا جو بعد میں پنجاب کے گورنر کے ساتھ ساتھ پاکستان مسلم لیگ کے صدر کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے رہے۔عبدالوحید کاکڑ نے  1955 میں ایڈورڈز کالج میں داخلہ لیا، جہاں سے انہوں نے گریجویشن  کی۔ انہوں نے 1956 میں پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی، اور انہیں کاکول میں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں جانے کی ہدایت کی گئی جہاں سے ان کے پاس آؤٹ ہونے کی امید تھی۔ لیکن 1958 میں انہیں اکیڈمی میں، 6 ماہ کی مدت کے لیے روک دیا گیاتھا۔ بالآخرانہوں نے 1959 میں فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور پر کمیشن حاصل کر لیا۔


کیرئیر:

 1965 میں پاک بھارت جنگ کے دوران، انہوں نے سیالکوٹ پنجاب کے چوونڈا سیکٹرمیں فوجی ڈیوٹی کے فرائض سنبھالے۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہوں نے سلیمانکی سیکٹرپر دشمن کے دانت کھٹے کیے۔ دونوں جنگوں کے دوران ان کی بہترین حکمت عملی   سے ان کو کافی شہرت حاصل ہوئی۔جنگ کے بعد، میجر کاکڑ کو کینیڈا کے کمانڈ اینڈ سٹاف کالج میں شرکت کے لیے منتخب کیا گیا، جہاں وہ امتحانات میں پہلے نمبر پر آئے اور  کینیڈا سے واپسی پرپی ایس سی کے طور پر کوالیفائی کیا۔ انہوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی۔انہوں نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (NDU) میں داخلہ لیا ۔جہاں انہوں نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے آرمڈ فورسز وار کالج (afwc) میں وار اسٹڈیز کی ڈگری حاصل کی اور گریجویشن حاصل کیا۔
1976-78 میں، بریگیڈیئر عبدالوحیدکاکڑ کو اس وقت کے لیفٹیننٹ جنرل رحیم الدین خان نے ملتان میں تعینات 2ndکور کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا۔ 1984 میں، میجر جنرل کاکڑ کو بعد ازاں کوئٹہ میں 16ویں انفنٹری ڈویژن کی کمانڈبطور جی او سی دی گئی۔ 1987-89 میں، میجر جنرل کاکڑ آرمی جی ایچ کیو میں ایڈجوٹینٹ جنرل کے طور پر تعینات تھے۔ اس وقت انہیں آرمی میڈیکل کالج میں تین طلباء کو داخل کرنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن انہوں نے صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے براہ راست حکم کے باوجود انکار کر دیا کیونکہ وہ کم از کم معیار پر پورا نہیں اترتے تھے۔ جس پر صدر ضیا الحق نے مجموعی نشستوں کو 60 سے بڑھا کر 100کرنے کا حکم دیا۔ 1989 میں، لیفٹیننٹ جنرل کاکڑ کو کوئٹہ میں تعینات XII کور کے فیلڈ کمانڈر کے طور پر تعینات کیا گیا۔

چیف آف آرمی سٹاف:

1993 کے موسم گرما میں،وزارت دفاع نے ریٹائر ہونے والے فوجی جرنیلوں کے ناموں کا اعلان کیا اور اس فہرست میں لیفٹیننٹ جنرل عبدالوحید کاکڑ بھی شامل تھے۔ کاکڑخود بھی ریٹائرمنٹ کے خواہاں تھے۔لیکن اس ریٹائرمنٹ کے بر خلاف،صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم نواز شریف سے مشاورت کے بغیر، جونیئر ترین لیفٹیننٹ جنرل کے تقرری کے کاغذات نامزداور منظور کر لیے۔ کاکڑ کوسینئر فور سٹار رینک پر ترقی دینے کے بعد  چیف آف آرمی سٹاف (COAS) کے عہدے پرفائز کر دیا گیا۔
لیفٹیننٹ جنرل کی وجہ سے یہ تقرری انتہائی متنازع تھی۔ کاکڑ نے کم از کم پانچ سینئر فوجی جرنیلوں کی جگہ لے لی، جن میں مندرجہ ذیل حضرات شامل تھے
آرمی جی ایچ کیو راولپنڈی میں لیفٹیننٹ جنرل فرخ خان، چیف آف جنرل اسٹاف (سی جی ایس)۔
لیفٹیننٹ جنرل جاوید ناصر، ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (ڈی جی آئی ایس آئی)۔
لیفٹیننٹ جنرل محمد اشرف، فیلڈ کمانڈر، IV کور لاہور۔
لیفٹیننٹ جنرل عارف بنگش، کوارٹر ماسٹر جنرل (QMG) آرمی جی ایچ کیو راولپنڈی میں۔
لیفٹیننٹ جنرل رحم دل بھٹی، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (NDU) کے صدر۔
ان درج کردہ فوجی جرنیلوں میں، CGS، QMG، اور DG-ISI نے ترقیوں کے لیے نظر انداز کیے جانے کے باوجود اپنی ذمہ داریوں پر رہنے کا انتخاب کیا۔ان کی تقرری کے بعد، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ: پختونوں کا دور شروع ہو چکا ہے۔ صدر کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا اور اسی طرح نئے چیف آف آرمی سٹاف کا بھی۔
فوج کی کمان اپنے آرمی چیف کے طور پر سنبھالنے کے بعد اور صدر غلام اسحاق کی توقعات کے برعکس جنرل کاکڑ نے 1993 میں پہلے صدر غلام اسحاق اور بعد میں وزیراعظم نواز شریف کا استعفیٰ حاصل کرکے آئینی بحرانوں کو حل کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔انہوں نے ملک گیر عام انتخابات کے انعقاد کی اجازت دی جس میں بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی واپسی دیکھنے میں آئی، جو بالآخر پاکستان کی وزیر اعظم بنیں۔ کاکڑ نے PAEC کے سائنسدانوں کے تحت تیار کیے گئے شاہین پروجیکٹ کے لیے حکومتی فنڈنگ حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ستمبر 1995 میں جنرل عبدالوحید کاکڑ نے میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کی سربراہی میں،  فوج کے کچھ افسران کے ایک گروپ کی طرف سے حرکت الجہاد الاسلامی (ایک عسکریت پسند گروہ)کے ساتھ مل کر،   انہیں اور بے نظیر بھٹو کو قتل کرکے اقتدار پر قبضہ کرنے کی سازش کا پتہ لگایا۔ اور جمہوریت کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس منصوبے کو ملٹری انٹیلی جنس اور ملٹری پولیس نے ملوث افراد کو پکڑنے اور گرفتار کرنے کے لیے آپریشن شروع کیااور منصوبے کو ناکام بنا دیا۔
1996 میں، جنرل کاکڑ نے مبینہ طور پر اپنی سروس میں توسیع سے انکار کر دیا اور اس معاملے پر کوئی عوامی بیان سامنے نہیں آیا تھا۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد، وہ کبھی عوام کے سامنے نہیں آئے اور راولپنڈی میں بہت پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔