بدھ 29 نومبر 2023
16  جُمادى الأولى 1445ھ
Pak Recorderads
نیوز الرٹ :

محمد علی

محمد علی

فوری حقائق:

عرفی نام: علی بھائی، بھیا،  شہنشاہِ جذبات

یوم پیدائش: 19 اپریل 1931

پیدائشی ملک: ہندوستان

پیدائش: رام پور، اتر پردیش

وجہ  شہرت: اداکاری


خاندان:

شریک حیات: زیبا (شادى 1966-2006)

والد: مولانا سید مرشد علی

بہن بھائی: ارشاد علی

بچے: ثمینہ علی

وفات: 19 مارچ 2006

موت کا مقام: لاہور


تعارف:

محمد علی ایک مشہور پاکستانی فلمی اداکار تھے جنہیں شہنشاہِ جذبات بھی کہا جاتا ہے۔ اپنے طویل اور کامیاب فنى سفر کے دوران انہوں نے 250 سے زائد پاکستانی فلموں میں اداکاری کی اور اپنے آپ کو ایک لجنڈری اور ورسٹائل اداکار کے طور پرثابت کیا۔ وہ برطانوی ہندوستان میں شمالی ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے ایک ضلع رام پور میں ایک اسلامی اسکالر والد اور ایک گھریلو خاتون کے ہاں پیدا ہوئے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد یہ خاندان پاکستان کے شہر حیدرآباد منتقل ہو گیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد، وہ مستقل طور پر ملتان چلے گئے، جہاں محمدعلی نے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ فن کى دنیا میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ محمدعلی نے ریڈیو براڈکاسٹر کے طور پر کام کرنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ ان کا رجحان فلموں میں تبدیل ہو گیا۔ انہوں نے اپنی اداکاری کا آغاز 1962 کی فلم ’چراغ جلتا رہے‘ سے کیا، جو ایک آرٹ فلم تھی۔ فلم نے پاکستانی سینما گھروں میں اپنی سلور جوبلی مکمل کی اور محمد علی کو ایک کامیاب کیریئر کی مضبوط بنیاد رکھنے میں مدد ملی۔ 1963 میں ریلیز ہونے والی فلم ’شرارت‘ ان کی پہلی فلم تھی۔ اس کے بعد انہوں نے 1990 کی دہائی کے آخر تک 250 سے زیادہ فلموں میں اداکاری کی۔ 1966 میں دور انِ اداکاری اُن کی ملاقات پاکستانی اداکارہ زیبا سے ہوئی اور اس کے فوراً بعد ان کی شادی ہوگئی۔

ابتدائی زندگی:

محمد علی 19 اپریل 1931 کو اتر پردیش، بھارت کے ضلع رام پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولانا سید مرشد علی علاقے کے ایک مشہور اسلامی اسکالر تھے۔ اس کی والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ ان کے والد انتہائی قدامت پسند اور مذہبی آدمی تھے جو اسلامی قوانین پر سختی سے عمل پیرا تھے۔ا س وجہ سے محمد علی کو فنی میدان میں کام کرنے کیحوالے سے تھوڑی پریشانی بھی ہوئی۔ محمد علی کی پیدائش کے فوراً بعد یہ خاندان شمالی ہندوستان کی ریاست ہریانہ کے ایک ضلع روہتک چلا گیا، جہاں سے محمد علی نے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی۔جب ایک علیحدہ مسلم قوم کے مطالبے نے مسلسل رفتار پکڑی، تو یہ خاندان سندھ کے مسلم اکثریتی شہر حیدرآباد منتقل ہوگیا جو کہ اب پاکستان کا حصہ ہے۔ 1947 میں ہندوستان کی باضابطہ تقسیم کے بعد، یہ خاندان پاکستانی ریاست پنجاب کے شہر ملتان منتقل ہو گیا۔ وہاں محمد علی نے ملت ہائی اسکول سے ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کی۔

وہ اپنے بڑے بھائی ارشاد کی وجہ سے ہمیشہ ڈرامے میں دلچسپی رکھتے تھے جو کہ ایک مشہور ڈرامہ فنکار تھے۔ محمد علی نے اپنی انٹرمیڈیٹ کی تعلیم گورنمنٹ ایمرسن کالج سے مکمل کی اور پھر حیدرآباد چلے گئے اور سٹی کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے کالج کے آخری سال کے دوران انہوں نے ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے لیے کام کرنا شروع کیا۔

فنى کیرئیر:

1950 کی دہائی کے اوائل میں پاکستانی فلم انڈسٹری سست رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھی۔ محمد علی بھی فلموں میں اپنا کیریئر بنانا چاہتے تھے۔ وہ جلد ہی کراچی چلے گئے اور 1960 کی دہائی کے اوائل میں فلموں میں آنے سے پہلے وہاں ایک مقامى ریڈیو اسٹیشن پر کام کیا۔

محمد علی نے 1962 کی فلم ’چراغ جلتا رہے‘ میں اپنا پہلا اداکاری کا کردار ادا کیا۔ اس وقت کی سب سے زیادہ انتظار کی جانے والی پاکستانی فلم تھی، اس کا پریمیئر 9 مارچ کو کراچی کے نشاط سینما میں ہوا۔  فلم کے پریمیئر میں قائداعظم محمد علی جناح کی بہن  فاطمہ علی جناح نے شرکت کی۔ یہ فلم ایک بڑی کامیابی تھی اور جلد ہی اپنی سلور جوبلی منائی، 25 ہفتوں تک مسلسل چلتی رہی۔ اس نے تنقیدی اور تجارتی دونوں طرح سے کامیابی حاصل کی اور سلور اسکرین ایوارڈ جیتا۔ محمد علی اس سال دو اور فلموں دال میں کالا اور بہادر ممیں بھى نظر آئے۔ دونوں فلموں میں انہوں نے ولن کا کردار ادا کیا۔

1963 میں محمد علی نے فلم شرارت میں کام کیا جو ان کی بطور معروف ہیرو پہلی ریلیز تھی۔ اس کے بعد جلد ہی ایک سسپنس تھرلر، Mr. X میں کام کیا، اسی سال، وہ تقریباً نصف درجن سسپنس تھرلر فلموں میں نظر آئے جیسے قتال کے بعد، خاندان، سفید خون، اور بیس دن۔ فلم خاندان میں محمد علی نے ڈبل رول کردار ادا کیا۔

انہوں نے 1964 میں سماجی مسائل پر مبنی فلم سے آغاز کیا، جس کا نام ’خاموش رہو‘ تھا، جس میں وہ معاون کردار میں تھے۔ یہ فلم ایک اور سلور جوبلی ہٹ تھی۔ اس سال ان کی اگلی فلم ’ہیڈ کانسٹیبل‘ ایک اور سلور جوبلی فلم تھی۔ اپنی اگلی فلم ’عورت کا پیار‘ میں محمد علی نے ایک بار پھر ولن کا کردار ادا کیا۔اگلے چند سالوں میں محمد علی کی کئی سلور جوبلی ہٹ فلمیں ہوئیں جیسے رواج، دل کے ٹکرے، شبنم، اور ہزار داستان۔

1965 میں کنیز جو کہ ایک میوزیکل فیملی ڈرامہ فلم تھی، اس فلم کے ذریعے محمد علی نے اپنے کیریئر کی پہلی گولڈن جوبلی فلم بنائی۔ 1960 کی دہائی کے وسط سے لے کر آخر تک، محمد علی نے کئی گولڈن جوبلی فلموں میں اداکاری کی جیسے کہ عینا، آگ، محل اور صائقہ۔

محمد علی نے جلد ہی اپنی اہلیہ اداکارہ زیبا کے ساتھ شراکت میں اپنا پروڈکشن ہاؤس شروع کیا اور کئی سلور جوبلی فلمیں بنائیں۔ انہوں نے ’آگ کا دریا‘، ’صائقہ‘ اور ’انسان اور آدمی‘ جیسی فلموں کے لیے ’بہترین اداکار‘ کے لیے متعدد ’نگار ایوارڈز‘ جیتے ہیں۔

1970 کی دہائی میں محمد علی نے بہت سی کامیاب فلموں میں اداکاری کی جیسے کہ ’سبق،‘ ’آس،‘ ’سماج،‘ ’گھرانہ،‘ اور ’ٹائیگر گینگ جو کہ ایک پاکستانی-جرمن مشترکہ پروڈکشن تھی۔ انہوں نے آئینہ اور صورت کے لیے بہترین اداکار کا ایک اور نگار ایوارڈ جیتا۔ وہ 1970 کی دہائی کے وسط سے لے کر آخر تک پاکستانی فلم انڈسٹری میں سب سے بڑے سپر اسٹار کے طور پر ابھرے، تقریباً ہر فلم نے یا تو سلور جوبلییا پھر گولڈن جوبلی ہٹ کا اعزازحاصل کیا۔ اس وقت ان کی بہت سی فلمیں، جیسے کہ ’انتخاب‘ اور ’بھروسہ،‘ پلاٹینم جوبلی ہٹ بھی بنیں۔

1980 کی دہائی میں محمدعلی نے سست روی اختیار کی اور جانے انجانے اور تیری بانہوں میں جیسی معیاری فلموں کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ 1989 میں انہوں نے منوج کمار کی ہدایت کاری میں بننے والی ہندوستانی ہندی فلم کلرک میں بھی کردار ادا کیا۔ اپنے کیرئیر کے آخری چند سالوں میں انہوں نے صرف پشتو فلمیں کرنے پر توجہ مرکوز کی اور 1995 کی فلم دم مست قلندر میں مہمان کردار میں نظر آئے جو ان کی آخری فلم بھی تھی۔


ذاتی زندگی:

محمد علی کی ملاقات پاکستانی اداکار زیبا سے اپنی پہلی فلم ’چراغ جلتا رہے‘ کی شوٹنگ کے دوران ہوئی، جو زیبا کی بھی پہلی فلم تھی۔ 1966 میں جوڑے نے تم ملے پیار ملا کی شوٹنگ کے دوران شادی کی اور 2006 میں اپنی وفات تک انہی سے شادی شدہ رہے۔اس جوڑے کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن انہوں نے زیبا کی پہلے شوہر سے بیٹی ثمینہ کو گود لے لیا اور اس کا نام ثمینہ علی رکھا گیا۔

محمد علی اور ان کی اہلیہ کے اپنے کیریئر کے دوران ہر پاکستانی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ انہوں نے ایک ساتھ چند خیراتی ادارے بھی چلائے تھے۔ ان کی خیراتی تنظیم، علی زیب فاؤنڈیشن نے بہت سے بیماروں کے علاج میں ان کی مدد کی۔محمد علی 19 مارچ 2006 کو لاہور میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ ’سی این این‘ کے سروے کے مطابق، وہ اب تک کے 25 عظیم ایشیائی اداکاروں میں شامل ہیں۔