Qateel Shifai

روشنی نہیں ہے دور دور تک
جاؤ مجھ کو چھوڑ دو
خامشی ہے مے کدے سے طور تک
بربطوں کو توڑ دو
یہ اداس رات کی سیاہیاں
نیند آ کے ٹل گئی
یہ مرے نصیب کی سیاہیاں
شمع کب کی جل گئی
نیند ہے نہ چاند ہے نہ جام ہے
پیاس کیا بجھاؤ گے
زندگی کی تیغ بے نیام ہے
آس کیا بندھاؤ گے
آسماں بلند ہے تو کیا کروں
ہائے میری پستیاں
کاش میں تمہیں کبھی دکھا سکوں
کچھ اجاڑ بستیاں
حسرتوں کا باغ باغ اجڑ گیا
پھول اب کھلیں گے کیا
ایک ایک ہم سفر بچھڑ گیا
دوست اب ملیں گے کیا
مشعلیں نہیں تو یہ چراغ کیوں
راہ بھول جاؤں گا
زندگی پہ کوئی تازہ داغ کیوں
چاہ بھول جاؤں گا
روشنی نہیں ہے دور دور تک
جاؤ مجھ کو چھوڑ دو
خامشی ہے مے کدے سے طور تک
بربطوں کو توڑ دو