Qateel Shifai

اے کسی گلشن زریں کی گراں قدر کلی
اپنی اجڑی ہوئی مہکار چھپا لے مجھ سے
اے کسی بستر کم خواب کی بے رنگ شکن
اپنا روندا ہوا کردار چھپا لے مجھ سے
اے کسی جنت زر فام سے آنے والی
اپنا ٹوٹا ہوا پندار چھپا لے مجھ سے
تو نے اک بار کہا تھا مجھے تنہائی میں
پیار دولت کا پرستار نہیں ہو سکتا
زندگی حرص کے پہلو میں نہیں سو سکتی
جسم رسوا سر بازار نہیں ہو سکتا
ولولے روح کے نیلام نہیں ہو سکتے
حسن ذلت کا پرستار نہیں ہو سکتا
مصلحت آج مگر جیت چکی ہے تجھ کو
کوئی کس منہ سے کہے مونس و غم خوار تجھے
کوئی کس دل سے کہے پیار کی رانی تجھ کو
کوئی کس طرح کہے پیکر ایثار تجھے
تو نے بیچی ہے سر عام جوانی اپنی
گدگداتی ہے زر و سیم کی جھنکار تجھے
یہ ترا پیار ترے جسم کا سودا ہی سہی
اب تری روح ترے پاس نہیں آئے گی
یہ ترا دل کہ بھٹکتا ہی چلا جاتا ہے
اس میں اب شدت احساس نہیں آئے گی
تو نے ہر چند گراں نرخ یہ جلوے بیچے
یہ تجارت بھی تجھے راس نہیں آئے گی
دیکھ اس دور جہاں سوز کے ویرانے میں
لذت جسم کے طوفان بہ ہر گام اٹھے
کیا یہی تجھ کو سکھایا ہے نظام زر نے
کہ محبت کا جنازہ سحر و شام اٹھے
کیا یوں ہی پیار کی توقیر ہوا کرتی ہے
کہ مہکتی ہوئی ہر سانس کا نیلام اٹھے
دیکھ اس دہر میں ارباب ہوس کے ہاتھوں
آبرو پیار کی مٹی میں ملی جاتی ہے
حرص کا شور فضاؤں میں رچا جاتا ہے
بات اخلاص کی ہونٹوں میں سلی جاتی ہے
سادگی حسن کا مجروح تبسم بن کر
کسی جلاد کے چہرے پہ کھلی جاتی ہے
تو کہ اب تجھ سے مجھے کوئی سروکار نہیں
بن کے تو کس کے لئے آئنہ رو آتی ہے
یہ نمائش کی محبت اسے میں جانتا ہوں
کیوں مرے سامنے سہمی ہوئی تو آتی ہے